کالا ہی تو اصل رنگ ہے جو اندھیـرے اور اجالے دونوں میں کالا ہی دکھائی دیتا ہے۔۔
چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں
اور دیکھتے ہیں
ان سانسوں کی تضحِیک میں سے
اس ماہ و سال کی بِھیک میں سے
اس ضرب، جمع، تفرِیق میں سے
کیا حاصل ہے، کیا لاحاصل
چل گٹھڑی کھول کے لمحوں کو
کچھ وصل اور ہجر کے برسوں کو
کچھ گِیتوں کو، کچھ اشکوں کو
پھر دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں
یہ درد بھری سوغات ہے جو
یہ جِیون کی خیرات ہے جو
اِک لمبی کالی رات ہے جو
سب اپنے پاس ہی کیوں آئی
یہ ہم کو راس ہی کیوں آئی
یہ دیکھ یہ لمحہ میرا تھا،
جو اور کسی کے نام ہوا
یہ دیکھ یہ صبح کا منظر تھا،
جو صبح سے مثلِ شام ہوا
اب چھوڑ اسے، آ دیکھ اِدھر
یہ حَبس پڑا اور ساتھ اس کے
کچھ اُکھڑی اُکھڑی سانسیں ہیں
ﺳﺮﺩ ﺷﺎﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﮔﻤﺎﮞ، ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺩُﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﺎ ﮨﮯ ﮨﺮ ﻣﻨﻈﺮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﯿﺮﯼ ﮐﻤﯽ ﭘﮧ ﺟﯿﺴﮯ
ﺍﺷﮑﺒﺎﺭ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﯿﮟ ﭼُﭗ ﭼﺎﭖ ﺗﻨﮩﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮞ
ﺳﮕﺮﯾﭧ ﮐﺎ ﺩُﮬﻮﺍﮞ ﺍُﮌﺍﺗﮯ ﺗُﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺳﺮﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺎﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ !
ﺍﻭﺭ ﺍﮎ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﺁﮦ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ
ﺩُﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺳﺮﺩ ﺷﺎﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﮔﻤﺎﮞ، ﺟﺎﻧﺎﮞ ۔۔۔۔۔ !!
ﮐﻞ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﺎﺕ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺩﯾﺌﮯ ﺳﻮ ﺳﻮ ﺟﻮﺍﺏ
ﻣﺠﻬﮯ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮔﻤﺎﮞ ﻧﮧ ﺗﻬﺎ
ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐـﻮ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮐـﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷـﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐـﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ بلکہ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﯽ ﺍﺗﻨﮯ ﺧﻠﻮﺹ ﺳﮯ ﮐـﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ که ﻭﮦ ﺧـﻮﺩ بہ ﺧﻮﺩ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﺟـﺎﺋﯿﮟ۔۔
Tum Ko Jahan e Shoq o Tamana MeiN Kya Mila...?
Hum Bhi Miley To Darham o Barham Miley TumheiN
دُنیا میں نفرت کی آگ تو بجھائی جا سکتی ہے،حسد کی نہیں....
شہر میں کوئی نہیں جس کو دعا دی جائے
سو مـیری عمــر درخـتوں کو لگا دی جــائے
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے
وہ وادیاں وہ فضائیں کہ ہم ملے تھے جہاں
میری وفا کا وہیں پر مزار آج بھی ہے
نا جانے دیکھ کے کیوں اُنکو یہ ہو احساس
کہ میرے دل پہ اُنہیں اختیار آج بھی ہے
وہ پیار جس کے لیؑے ہم نے چھوڑ دی دنیا
وفا کی راہ میں گھائل وہ پیار آج بھی ہے
یقیں نہیں ہے مگر آج بھی یہ لگتا ہے
میری تلاش میں شائد بہار آج بھی ہے
نا پوچھ کتنے محبت کے ذخم کھائے ہیں
کہ جن کو سوچ کے دل سوگوار آج بھی ہے
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے
ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍﺳﻢ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﭨﻮﭨﯿﮟ ﮔﮯ
ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ
ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺍﭨﮭﺎ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ
اپنے ہاتھوں کی لکیروں نہ بدل پائے ہم
خوش نصیبوں سے بہت ہاتھ ملاکر دیکھے
صبح بخیر زندگی
دعا مومن کا ہتھیار ہے لیکن دعا مانگتے ہوئے جامع الفاظ اور رقت آمیز لہجہ ہونا چاہئیے کیونکہ اللہ تعالی غافل دل کی پکار کو پسند نہیں فرماتا-
آنکھ سے اشک بہاتے ہیں دعا کرتے ہیں
ہم فقیر آتے ہیں، جاتے ہیں، دعا کرتے ہیں
جو نئے لوگ محبت کی طرف آتے ہیں
ان کو ہم راہ دکهاتے ہیں دعا کرتے ہیں
لوگ تو ہاتھ اٹهاتے ہیں ستم کرنے کو
ہم اگر ہاتھ اٹهاتے ہیں دعا کرتے ہیں
دوست آباد رہیں اور عدو شاد رہیں
ہاتھ زخموں کو لگاتے ہیں دعا کرتے ہیں
اس کی پوروں میں نہ چبھ جائے کوئی کرچی کہیں
آئینے ٹوٹتے جاتے ہیں، دعا کرتے ہیں
ہم سے درویش صفت خاک نشیں لوگ زکی
راہ سے سنگ ہٹاتے ہیں دعا کرتے ہیں
زیست کی اس کتاب میں جاناں
ذکر ہر باب میں تمہارا ہے
تو میری خانہ بدوشی سے کہاں واقف ہے
میں تو گھر بار اٹھاوں گا چلا جاوں گا
محبت روٹھ جائے تو
اسے فورا منالینا
انا کی جنگ میں اکثر
جدائ جیت جاتی ہے...
Question of the week
اگر آپ کو صرف ایک خواب پورا کرنے کی اجازت ملے تو آپ اپنا کون سا خواب پورا کرنا چاہئیں گے ؟
سچی سچی دل کی بات بتائیں.....
موج خوشــــبو کی طرح بات اُڑانے والے
تُجھ میں پہلے تو نہ تھے رنگ زمانے والے
کتنے ہیرے میری آنکھون سے چُرائے تو نے
چَند پتھر میری جھولی میں گِرانے والے
تم کو اپنی مثال دیتی ہوں
عشق زندہ بھی چھوڑ دیتا ہے
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں
میری عادتیں نہ خراب کر....
ﺍُﺩﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ....
ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﯿﮟ ...
ﺳُﮑﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﮭﻮﻝ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺷﺎﺧﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻮﮌ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ...
ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﺳﺠﺎ ﻻﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺘّﮯ ...
ﺭﭼﯽ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺭﯾﺸﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﻮﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ...
ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﭘﮧ ﮔﺰﺭﮮ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻧﺸﯿﮟ ﻟﻤﺤﮯ ...
ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮ ﻻﺗﯽ ﮨﮯ ...
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮭﻮﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﮭﻮﺝ ﻻﺗﯽ ﮨﮯ ...
ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﻗﻔﻞ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ...
ﺍﺩﺍﺳﯽ ﺟﺎ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺑﺪﻥ ﮐﮯ ﺍُﻥ ﺟﺰﯾﺮﻭﮞ ﭘﺮ ...
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮ ...
ﺍﺩﺍﺳﯽ ﭨﻤﭩﻤﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﮩﻮ ﮐﮯ ﺍُﻥ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ...
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮ ...
ﯾﮧ ﺟﮭﻮﻟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻟﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺟﻮ ...
ﮐﺒﮭﯽ ﺣﻞ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ...
ﯾﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﺷﮏ ﻟﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﺗﮏ ...
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﮨﻢ ﺭﻭ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ...
ﺍﺩﺍﺳﯽ ﺍﻥ ﮔﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺭﺍﺝ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ...
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﺍﯾﻤﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ...
ﯾﮧ ﺍُﻥ ﺩﺷﻮﺍﺭﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ ...
ﺟﻨﮭﯿﮟ ﺁﺳﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ...
اخلاق ایک دکان ہے اور زبان اس کا تالا
جب تالا کھلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دکان قیمتی موتیوں سے بھری ہے یا بیکار پتھروں سے.
دعا...
ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے
جیسے کمرے سے کوئ صحن میں پنجرہ رکھدے
شب بخیر زندگی
یہ دکھ بھی کم تو نہیں ہے کہ نیم سوز چراغ
جلا نہیں تھا کہ اس کو بجھا دیا میں نے
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
شام بخیر
زندگی کتنی خوبصورت ہوتی اگر کاغذ قلم چائے کا کپ ہوتا، کھڑکی پر بارش کی بوندیں ہوتیں، اور ہم بچپن کی طرح مستقبل کے خوف سے بے نیاز ہوتے....
زندگی مہربان بھی تو ہوسکتی تھی.....
ذیادہ عرصے تک اپنے چہرے پر دوسرا چہرہ سجانے والے خود بھی بھول جاتے ہیں کہ اصل میں وہ کون ہیں۔۔
سب نے آخــر خدا پہ چھـوڑ دیا
مجھ سے بیـمار کا ہوا نہ علاج
ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮔﻨﻮﺍﺩﯾﺎ
ﻭﮦ ﭼﻞ ﺩﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﻃﺮﺯ ﺍﺩﺍ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﯽ ﺭﮨﯽ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮐﮯ ﺣﺮﻑ ﺩﻋﺎ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﯽ ﺭﮨﯽ
بنا رکھی تھیں دیـواروں پر تصویـریں پـرندوں کی
وگـرنہ ہم تو اپنے گھــر کی ویـرانی سے مـر جاتے۔
ﺍﺩﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ۔۔ !
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻏﻢ،
ﮨﻮ ﺗﻢ ﭘﺮﯾﺸﺎﮞ۔۔
ﮨﮯ ﺍﮎ ﺧﻠﺶ ﺳﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺟﺎﻧﯽ۔۔؟
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ۔۔
ﻣﮕﺮ ﺑﺘﺎﺅ۔۔؟
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﯽ ﮨﮯ۔۔؟
ﮐﺒﮭﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﯽ ﮨﮯ۔۔؟
ﺟﻮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﺮ ﮨﻮﮞ
ﻋﺰﯾﺰ ﺗﻢ ﮨﻮ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺷﮑﻮﮦ ﺑﺠﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺳﮯ۔۔
ﺍﮔﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﮮ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻠﺦ ﻟﮩﺠﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﭙﯽ ﻭﺟﻮﮨﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ۔۔
پہلے شعور کے پردے اٹھتے ہیں۔۔ پھر آہستہ آہستہ لاشعور کے در وا ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص آفاقی سطح پر پہنچ جاتا ھے تو ماوراء میں دیکھنے اور اسے جاننے لگتا ھے۔۔ پھر انسان سلیمانی ٹوپی پہن کر بازاروں میں پھـرتا ھے۔۔ دنیا کے ہنگاموں سے بے پرواہ منـزل منـزل گھومتا ھے۔۔ لوگ صرف ایک گمنام اور قناعت پسند آدمی کو جانتے ہیں۔۔ کیونکہ جو کچھ وہ دیکھتا ھے اور کوئی نہیں دیکھتا اور جو کچھ وہ جانتا ھے اور کوئی نہیں جانتا۔۔ اسطرح چپکے چپکے کوئی پاگل زندگی کی سچائی اور اصلیت کی کھوج میں لگا رہتا ھے اور اسی کھوج میں اسے کبھی سکون مل بھی جاتا ھے۔۔ سکون۔ ۔ جو دنیا کی تمـام آفتوں کے مقابلے میں ڈھال ھے۔۔
ہوﺍ ﺗﮭﻤﯽ ﺗﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﯿﮑﻦ
ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺴﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﺯﺭﺩ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻧﺪﮬﯿﻮﮞ ﻧﮯ
ﻋﺠﯿﺐ ﻗﺼﮧ ﺳﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﭘﺘﮯ
ﺳﺴﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ
ﺑﻠﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﮯ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ
ﺷﺠﺮ ﺟﮍﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﮐﮭﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ
ﺑﮩﺖ ﺗﻼﺷﺎ ﺗﮭﺎ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﺳﺘﮧ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﺩﯼ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺑﺖ
ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﺎﭨﯽ
ﻣﮕﺮ
ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﺒﺮ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺣﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﻨﺎ۔۔ !
ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺁﺝ ﺗﮏ ﭼُﭗ ﮨﮯ۔۔
ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ،
ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻭﮦ ﺍﺏ ﺗﮏ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔۔ !!
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺣﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﻨﺎ۔۔ !
ﮐﮧ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ ﻧﮯ،
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮬﯽ ﮨﮯ۔۔
ﺗﮭﮑﻦ ﺍﺏ ﮐﮧ ﺑﺮﺱ ﺍﺗﻨﯽ،
ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﻭﺑﺘﯽ ﻧﺒﻀﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﺎﺋﻒ ﺳﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔۔
ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﯾﮧ ﮈﻭﺭ ﮐﭧ ﺟﺎﺋﮯ۔۔
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﯿﭻ ﮐﮯ ﺍﻥ ﻓﺎﺻﻠﻮﮞ ﮐﻮ،
ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﮨﺎﺭ ﻧﮧ ﺟﺎﺅﮞ۔
ﺑﺒﺴﺎﻁِ ﺟﺎﮞ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﺩﻭﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ،
ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﻣﺮﺟﺎﺅﮞ۔۔ !!
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺣﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﻨﺎ۔۔ !
ﻗﺒﺮﯾﮟ __ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﭘﻦ ﮐﻮ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻣﺮﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ !__
جہالت جتنی زیادہ ہو انتہا پسندی اُتنی ہی زیادہ ہو گی۔۔
تم لوٹ کے آنے کا تکلف نہیں کرنا,
ہم ایک ہی محبت بار بار نہیں کرتے...
بکھر رہے ہیں میری زندگی کے سارے ورق
احباب مکمل کیجئے ....
No comments:
Post a Comment